سوشل میڈیا: کیا اور کیوں؟ / Social Media: A guide (in Urdu)
سمارٹ ڈیوائسز مثلا فونز، ٹیبلیٹس اور دیگر کے طفیل اب انٹرنیٹ باآسانی میسر ہے۔ دنیا میں کسی بھی جگہ رابطہ کرنا اب ناممکن نہیں رہا۔ انٹرنیٹ کی اس فراوانی کے باعث ایک شخص صرف اس معاشرے کا حصہ نہیں جہاں وہ رہتا ہے بلکہ وہ عملی طور پر ہر اس معاشرے کا حصہ ہے جہاں اس کی پہنچ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مواصلاتی خلا کو پورا کرنے کے لیے نت نئی ایپلیکیشنز وجود میں آرہی ہیں جو رابطوں کو بہتر بنانے میں مدد دیں۔
لوگوں کے باہم روابط کے حوالے سے انٹرنیٹ کی دنیا میں دو اصطلاحات مقبول ہیں۔ ایک سوشل میڈیا اور دوسری سوشل نیٹورکنگ۔
سوشل نیٹورکنگ عموما اس عمل کو کہا جاتا ہے جس میں انسان ایک خاص حلقہ سے مخاطب ہوتا ہے۔ اس میں براہ راست روابط ضروری ہوتے ہیں۔ جبکہ سوشل میڈیا سے مراد انٹرنیٹ کو استعمال کرتے ہوئے اپنی بات پہنچانا ہے۔ آپ چاہے بلاگ لکھیں، اپنی ویب سائٹ بنائیں ، کسی اور ویب سائٹ کے ذریعہ اپنے کاروبار کی تشہیر کریں یا فاصلاتی تعلیم دیں۔ یہ سب سوشل میڈیا کا حصہ ہے۔
اس وقت دنیا میں بے شمار سائٹس موجود ہیں جن کے ذریعہ سوشل میڈیا یا نیٹورکنگ کا حصول ممکن ہے۔ تاہم چند ایک دیوقامت کمپنیاں ہیں جن کو اس سلسلہ میں خاص مقام حاصل ہے مثلا فیس بک، ٹویٹر، سنیپ چیٹ، انسٹا گرام، پن ٹرسٹ وغیرہ۔ یہ تقریبا ناممکن ہے کہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے لوگوں کو ان سے واقفیت نہ ہو۔ ذیل میں ہم ان کے مقاصد پر مختصرا روشنی ڈالیں گے تاکہ صارفین کو یہ تعیین کرنے میں آسانی ہو کہ وہ کس سائٹ کو کس مقصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
فیس بک
فیس بک سوشل نیٹورکنگ کے حوالے سے سرفہرست ہے۔ ۔ بنیادی طور پر اس کا مقصد آپ کو اپنے دوست احباب سے رابطے میں مدد دینا ہے۔ آپ اپنے روز مرہ کے معمولات یا خاص مواقع ان کے ساتھ شئیر کر سکتے ہیں۔ چونکہ اس کے صارفین کی تعداد بہت بڑی ہے اور اس کے ذریعہ خبر بہت جلدی پھیلتی ہے لہذا اس میں آپ کسی قسم کے کاروبار کی تشہیر بھی کر سکتے ہیں۔ چند بنیادی فیچرز میں ٹیکسٹ، تصاویر، ویڈیوز، ٹیگ، آڈیو/ویڈیو چیٹ، گروپ چیٹ وغیرہ شامل ہیں ۔
ٹویٹر
ٹویٹر فیس بک سے قدرے مختلف ہے کیونکہ ایک تو اس میں پیغام کی ایک حد مقرر ہے جو کہ 165 حروف پر مشتمل ہے دوسرا اس میں آپ کاسوشل سرکل فرینڈس تک محدود نہیں ہوتا بلکہ آپ کسی کو بھی فالو کر سکتے ہیں۔ آپ مختصر پیغام ،تصاویر، متحرک تصاویر اور ویڈیوز شامل کر کے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچا سکتے ہیں۔ یہ ابلاغ کا مؤثر و مقبول ذریعہ بن چکا ہے۔ آپ کسی بھی شخصیت کو فالو کر کے اس کے پیغامات کی اپ ڈیٹ حاصل کر سکتے ہیں اور ری-ٹویٹ کے ذریعہ آگے پہنچا سکتے ہیں۔ ٹویٹر کو کسی حد تک خبروں کا آفیشل ذریعہ مانا جاتا ہے اور اہم شخصیات اس کو استعمال کرتی ہیں۔
سنیپ چیٹ
سنیپ چیٹ نوجوانوں میں بے حد مقبول ہوچکا ہے۔ اس میں آپ ویڈیو اور تصاویر کے ذریعہ چیٹ کر سکتے ہیں۔ اس کی مقبولیت کی بنیادی وجہ اس کا “سیلف-ڈسٹرکٹیو” فیچر ہے۔ یعنی یہ پیغام پڑھ لینے کے بعد خود ہی اس کو حذف کر دیتا ہے بعینہ اس طرح جیسے فون میں فلیش میسج ہوا کرتے تھے۔ آپ عارضی طور پر آف لائن تصاویر یا ویڈیو بھیجنا چاہتے ہوں تو سنیپ چیٹ ایک بہترین ذریعہ ہے۔ بھیجنے والا جیسے ہی پیغام کھول کر دیکھے گا، چند ثانیوں میں وہ پیغام غائب ہوجائے گا۔ لوگوں نے پیغامات محفوظ کرنے کے چور دروازے دریافت کیے ہیں لیکن ہر نئی اپ ڈیٹ کے ساتھ وہ غیر مؤثر ہوجاتے ہیں۔ مثلا اگر آپ کے پیغام کا سکرین شاٹ لیا جاتا ہے تو سنیپ چیٹ خود کار طریقہ سے آپ کو بتا دے گا کہ آپ کے پیغام کا سکرین شاٹ لے لیا گیا ہے۔ لیکن بہرحال انٹرنیٹ کی دنیا میں آپ کسی ایپ پر اعتبار نہیں کر سکتے۔ لہذا ایسی چیز کبھی مت بھیجیں جو بعد میں آپ کے لیے مسئلہ بن سکیں۔
انسٹا گرام
انسٹا گرام تصاویر اور ویڈیوز کا تیز ترین سوشل نیٹورک ہے۔ اس کی مقبولیت کی وجہ استعمال میں سہولت، فوٹو فلٹرز مہیا کرنا اور دیگر سوشل نیٹورکس پر آسان شئیرنگ ہے۔
سوشل میڈیا کے فوائد و نقصانات کی فہرست طویل ہے جو علیحدہ مضامین کی متقاضی ہے۔ یہاں ہم اختصار سے یہ بتاتے چلیں کہ جیسے ہر چیز کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں اسی طرح سوشل میڈیا کو بھی پرکھا جاتا رہتا ہے۔
• رابطہ کا آسان اورسستا ترین ذریعہ
• آسان اور سستا ذریعہ معلومات، چاہے عام خبر ہو یا علمی
• تعلیم میں مدد
• باہم دلچسپی کے موضوعات پر ہم خیال لوگوں سے بات چیت میں آسانی
سوشل میڈیا کے نقصانات
• غلط معلومات کا انبار، غلط فہمیاں پھیلنے کا تیز ترین ذریعہ
• سوشل میڈیا کا نشہ ہونے کی بدولت وقت کا ضیاع
یہ ہر شخص کے اپنے اوپر منحصر ہے کہ وہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کرتا ہے یا منفی۔ اگر مثبت استعمال کیا جائے تو اس سے بڑھ کر مفید چیز کوئی نہیں۔ بحیثیت مسلمان، اگر انسان کا یہ عقیدہ ہے کہ اسے اپنے ہر عمل کا حساب دینا ہے تو وہ سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلانے ، دوسروں کو تنگ کرنے ، تفاخر جتانے اور اس قسم کے دیگر مذموم مقاصد سے دور رہ کر مثبت کام کرے گا۔ یاد رکھیے کہ ہر شخص اپنی ذاتی زندگی میں کئی کٹھنائیوں سے نبرد آزما ہوتا ہے۔سوشل میڈیا پر عام زندگی سے کہیں بڑھ کر جذباتیت اور منفیت پائی جاتی ہے جو اصل زندگی میں اثر پذیر ہوتی ہے۔ آپ کوشش کیجیے کہ اس کا مثبت استعمال دوسروں کی مشکل زندگیوں میں حوصلے بلند کرنے کا سبب ہو نہ کہ پریشانیوں میں اضافہ کرنے کا۔
یہ تو تھیں وہ معلومات جو سوشل میڈیا کے حوالے سے آپ کہیں نہ کہیں پڑھتے رہتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ تکنیکی اعتبار سے سوشل نیٹ ورکنگ کی کیا حیثیت ہے۔
انٹرنیٹ پر غیر محسوس قبضہ
سوشل میڈیا سے پہلے ویب سائٹس اور ای میل کو زیادہ مقبولیت حاصل تھی۔ اب دیکھا جائے تو غیر تکنیکی لوگ انٹرنیٹ پر فیس بک وغیرہ تک ہی محدود ہوتے ہیں اور انہیں ای میل کا استعمال تک نہیں آتا۔ اس پہلو سے ان کے لیے فیس بک ہی انٹرنیٹ ہے۔ ان کی تمام معلومات فیس بک پر موجود ہوں گی۔ چاہے وہ زندگی کے کسی شعبے کے حوالے سے ہوں۔ اسی طرح کی مثال بلاگ کی لیجیے۔ بلاگز کی دنیا میں ٹمبلر، ورڈ پریس یا بلاگر مشہور ہیں جو مفت بلاگ کی سہولت مہیا کرتے ہیں۔ ویڈیوز کی دنیا میں یوٹیوب، تصاویر کے لیے انسٹا گرام ، فلکر، پن ٹرسٹ وغیرہ۔ وعلیٰ ھذا القیاس ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انٹرنیٹ پر چند بڑی کمپنیوں کا قبضہ ہوچکا ہے جو تمام صارفین کا ڈیٹا جمع کر تی جارہی ہیں- تکنیکی اعتبار سے یہ ڈیٹا سینٹرلائزڈ (centralized) ہوچکا ہے جو کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔ انٹرنیٹ کی ٹیکنالوجی ہر ایک کے لیے اوپن ہے اور رہنی چاہیے۔ لیکن ان کمپنیز کی بدولت یہ اوپن نہیں رہی۔ آپ کا ڈیٹااس وقت تک آپکا ہے جب تک آپ کسی سوشل سائٹ پر نہیں دیتے۔ جوں ہی آپ نے نشر کیا وہ آپ کی پہنچ سے باہر ہوگیا۔ چاہے اپ اس کو حذف کر دیں، وہ کمپنی کی ملکیت رہے گا۔ اور کمپینیاں حکومتوں کے تابع ہوا کرتی ہیں، وہ جہاں چاہیں اور جیسے چاہیں استعمال کریں۔ ویب کے موجد، سر ٹم-برنرز – لی کو بھی اس حوالے سے تشویش ہے اور وہ اس کا مختلف مواقع پر اظہار کر چکے ہیں۔ ورلڈ وائڈ ویب کی تازہ کانفرنس جو کہ جو اپریل 2016 میں کینیڈا کے شہر مونٹریال میں منعقد ہوئی ،اس میں بھی انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ویب کو پھر سے ڈی- سینٹرلائز کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی قسم کی تحقیقاتی کاموں کے لیے ڈی سنترالزد انفارمیشن گروپ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے جس کے ہیڈ ٹم- برنرز – لی ہیں۔
سوشل میڈیا کے دیگر کئی تحقیقاتی پہلو ہیں جنہیں مضمون کی طوالت کے پیش نظر ذکر نہیں کیا گیا۔ ان میں ایک یہ بھی ہے کہ اس کے منفی پہلوؤں کو ختم کیسے کیا جائے، جس میں لوگوں کو سوچنے کا موقع ملے کہ وہ کیا نشر کر رہے ہیں اور اس کا معاشرے پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔
0 comments:
Post a Comment